Add To collaction

07-Oct-2022-تحریری مقابلہ اوپن ٹاپک فیصلہ

تحریری مقابلہ اوپن ٹاپک۔ ‌😔💤  فیصلہ 💤🤔


 آفس کا وقت ختم ہوتے ہی شرجیل نے جلدی جلدی اپنے فائلس کو سمیٹا اور چپراسی کو کچھ ضروری ہدایت دیتے ہوئے تیزی سے لفٹ کی طرف بڑھا اور دسویں فلور سے گراونڈ فلور آ کر اسں نے موبائل پر اپنی امی سے رابطہ کیا ۔
اس طرف سے جیسے ہی کال ریسیو ہوا شرجیل نے نہایت متانت سے کہا  :   أمی آپ تیار رہیں میں آدھے گھنٹے میں پہنچ جاؤں گا ۔
دوسری طرف سے کسی نے جواب دیا  بیٹا میں بانو خالہ  (ملازمہ) ہوں  تمہاری امی کو بہت تیز بخار ہے وہ بیہوشی کی.........  شرجیل بیچ میں ہی بول پڑا خالہ آپ برف کی پٹی کریں میں ڈاکٹر لے کر آتا ہوں 
ڈاکٹر صاحب نے چیک اپ کے بعد دوائیاں لکھ دی اور کہا گھبرانے کی بات نہیں وائرل فیور ہے ‌‌‌ٹھیک ہو جائے گا ۔جب تک ٹمپریچر 100پر نہ آۓ برف کی پٹیاں کرتے رہیں
شرجیل ڈاکٹر صاحب کے ساتھ ہی باہر نکل آیا دوا خانے سے دوائیاں لی اور گھر آکر  أمی کو کھلائی ۔ 
وہ فریش ہوکر آیا تو ملازمہ نے سینڈوچ اور چاۓ لا کر رکھ دیا ناشتہ سے فارغ ہو کر وہ امی کو پٹیاں کرنے بیٹھ گیا 
اس نے بانو خالہ سے درخواست کی کہ آج وہ رک جائیں !
 اور پھر ان سےکہا :  بانو خالہ آپ بھی چاۓ پی لیں اور آرام کریں ضرورت ہوگی تو میں بلا لوں گا ۔
وہ دل ہی دل میں اللہ تعالیٰ سے اپنی امی کی زندگی اور صحت کی دعائیں کرتا جاتا اور ٹمپریچر بھی جیک کرتا جاتا تقریبا دو گھنٹے کے بعد بخار کی شدت میں کمی آئی وہ بےسدھ پسینے سے شرابور ہو گئی تھیں ۔ 
شرجیل نے بانو خالہ کو آواز دی تو وہ دوڑتی ہوئی آئیں  کیسا ہے؟ بخار 
جی کم ہوگیا ہے ۔
  خالہ پلیز   أمی کے کپڑے بدل دیں ۔پسینہ سے تر ہوگئی ہیں ۔  یہ کہتے ہوئے وہ کمرے سے نکل گیا ۔
اس نے موبائل دیکھا تو گل افشاں کے کئی مسڈ کال تھے ۔اسں نے امی کے ساتھ گل افشاں کے گھر جانا تھا مگر ۔۔۔۔۔۔۔اس بھاگ دوڑ میں  اسے گل افشاں کو بتانے کا خیال ہی نہیں آیا ۔
اس کی کل کائنات کی خوشیاں ماں کے دم سے ہی برقرار تھی  پانچ سال قبل  والد کے شفیق ساۓ سے محروم ہو گیا تو ماں نےاپنی ممتا کی چھاؤں کو اور بھی زیادہ گھنا کر دیا تاکہ زمانہ اس کے یتیم بیٹے کو تکلیف نہ پہنچا سکے ۔
آج وہ اپنی ماں کی طاقت بن گیا ہے وہ دنیا بھر کی خوشیاں ماں کے قدموں پہ نچھاور کرنا چاہتا ہے ۔ اپنی أمی کی تمام خواہشات اور تمناؤں کو اپنے اوپر لازم و ملزوم کرنا چاہتا ہے ۔
امی نے بھی تو میری چھوٹی چھوٹی  خواہشوں کا خیال رکھا ہے میری آرزؤں کو پورا کرنے میں لگی رہتی ہیں ۔جیسے ہی انہیں گل افشاں اور میرے بارے میں میرے کزن نوید سے معلوم ہوا انہوں نے  نہایت نرمی سے مجھ سے پوچھا تو میں نے جھجھکتے ہوئے سج بتا دیا ۔
گل افشاں کے یہاں اس کی شادی کے لئے بڑی جلدی تھی اس لئے وہ گل افشاں کے اصرار پرآج اپنی امی کو اس کے گھر لے جانے والا تھا مگر ۔۔۔۔۔‌۔۔۔۔‌۔۔!
اس نے گل افشاں کا نمبر ڈائل کیا  رنگ ہونے پر اس نے ریسیو نہیں کیا۔  دو۔۔۔۔۔۔۔تین ۔۔۔۔۔۔۔۔۔جار۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پانچویں بار ڈائل کرنے پر اس نے کال ریسیو کی اور ترش لہجے میں بولی:  اب کیوں کیا ہے فون؟  مجھے تم سے بات نہیں کرنی ۔پاپا ممی نے اپنا قیمتی وقت صرف اور صرف میرے لئے نکالا تھا جسے تم نے ضائع کردیا یہ کہہ کر اس نے موبائل آف کر دیا
شرجیل کچھ نہ کہہ سکا وہ چپ چاپ أمی کے پاس آیا دوا نے اپنا اثر دکھایا تھا اسے قدرے اطمینان ہوا ۔وہ بھی أمی کے کمرے میں صوفے پر لیٹ گیا ۔
الصبح امی کی نحیف آواز سے اس کی آنکھیں کھل گئیں وہ پانی مانگ رہی تھیں ۔ 
شرجیل نے أمی کو پانی پلا کر ان کے ہاتھوں کا بوسہ لیا
امی آپ نے تو مجھے ڈرا ہی دیا تھا ۔ پھر کہا بخار آنے پر مجھے فون کیوں نہیں کیا ؟ ‌‌‌‌‌
ماں نے مسکراتے ہوئے دھیمی آواز میں کہا: تم ذرا ذرا سی بات پر میرے لئے پریشان ہو جاتے ہو اسی لئے ۔۔۔۔ اور پھر اچانک سے بخار بھی تیز ہوگیا تھا میں سمجھ نہیں پائی ۔۔۔۔۔۔ میں تو تمہارے ساتھ گل افشاں کے گھر جانے کی تیاری کر رہی تھی۔
بیٹا  ۔ ان لوگوں کو اپنی مجبوری بتا دی ہے نا ! میں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شرجیل نے بات کاٹتے ہوئے کہا۔  امی زیادہ بات نہ کریں ! 
اب آرام کریں میں بانو خالہ سے کہہ کر  ہلکا پھلکا ناشتہ بنواتا ہوں ۔
تین دنوں کے بعد بخار جاتا رہا تھوڑی سی کمزوری تھی جو آرام کرنے اور کھانے پینے سے دور ہو رہی تھی ۔
چھوٹی چچی ،چچا اور  نوید عیادت کو آۓ ۔ 
چچی نے امی سے کہا: بھابھی آپ تو بڑی خوش قسمت ہیں۔ بیٹی نہ ہونے کے باوجود بھی آپ کا بیٹا ساری رات سرہانے بیٹھا برف کی پٹیاں کرتا رہا  بھئی ! ہمارے تو بیٹے بیٹیاں گھوم گھوم کر پوچھتے ہیں باقی تیمارداری ملازمہ کے حوالے کر دیتے ہیں ۔
امی نے مسکراتے ہوئے کہا الحمدللہ! میرا بچہ سمجھدار ہو گیا ہے ۔  تم دل چھوٹا نہ کرو تمہارے بچوں کو بھی عقل آجائے گی ابھی تو کمسن ہیں ۔ادھر أمی وغیرہ باتوں میں لگی ہوئی تھیں ۔
ادھر نوید نے بتایا کہ۔  میں نے گل افشاں باجی کو فون کر کے ساری باتیں بتائی بڑی امی کے بارے میں بتایا لیکن ان کا موڈ درست نہیں ہوا کہنے لگیں کہ اپنے  شرجیل بھائی کو میرا پیغام دینا وہ کل شام چار بجے پارک کیفٹریا میں مجھ سے ملاقات کرے ۔
رات کھانے کے دوران امی نے شرجیل سے کہا  میں پہلے سے  بہتر محسوس کر رہی ہوں ان شا ء اللہ دو تین دنوں میں بالکل ٹھیک ہو جاؤں گی تم گل افشاں سے معلوم کر کے مجھے اس کے والدین سے ملوا دو تاکہ میں اپنی بہو جلد از جلد لے آؤں ۔
شرجیل نے گردن ہلائی اؤر کہا۔  میری پیاری امی پہلے اپنی صحت بحال کریں پھر یہ سب باتیں ہوتیں رہیں گی ۔
دوسرے دن شام چار بجے شرجیل پارک کیفٹریا پہنچا گل افشاں پہلے سے موجود تھی ۔ شرجیل کو دیکھتے ہی بھڑک اٹھی ۔میں کال نہیں کروں گی تو تم بھی ‌‌نہیں کروگے!!
شرجیل نے آہستہ آواز کرنے  کا اشارہ کیا اور کرسی پر بیٹھتے ہوئے بولا۔  افشی !  نوید نے تمہیں سب کچھ بتا دیا ہے نا امی کو وائرل فیور ہوا تھا اور اس وقت میں اتنا پریشان تھا کہ بروقت میں تمہیں اطلاع نہ دے سکا  ۔معذرت کے لئے جب فون لگایا تو تم نے مجھے کچھ کہنے کا موقع ہی نہیں دیا ۔ چلو آج تم سے معافی مانگ لیتا ہوں۔اگر انکل آنٹی سے بھی معافی مانگتا پڑا تو مانگ لوں گا وہ میری مجبوری ضرور سمجھیں گے۔
گل افشاں نے کہا : یہ تو بعد کی بات ہے پہلے تم مجھے یہ بتاؤ کہ تم مجھ سے کتنا پیار کرتے ہو ۔
شرجیل نے ہنستے ہوئے کہا تم اپنے دل سے ہی پوچھ لو 
گل افشاں کے تیور آج کچھ الگ نظر آرہے تھے اسں نے اتراتے ہوئے کہا  :  شرجیل !    کالج میں  مجھ پر مرنے اور جان دینے والوں کی کمی نہیں تھی کس کس کی محبت کے بارے میں دل سے پوچھوں۔   میں نے کسی کو لفٹ نہیں کرائی ؛؛؛
بہرحال۔ !  تم مجھے اس لئے اچھے لگے کہ تم سب سے الگ تھلگ رہ کر بھی پڑھائی۔ اسپورٹس اور دیگر ایکٹیویٹیز میں میں سرفہرست رہتے تھے ‌‌‌کالج کے ہیرو کہلاتے تھے ۔ اس لئے  میں نے خود آگے بڑھ کر تم سے دوستی کی تمہیں اپنا دیوانہ بنایا ۔ شادی تو کرنی ہی ہے تو ۔۔۔۔‌۔۔۔ پھر سوچتے ہوئے بولی 
محبت میں آزمائش ہوتی ہے  اب تمہار ے پیار کا امتحان ہے
یہ بتاؤ ! تم مجھے حاصل کرنے کے لئے کیا کیا کر سکتے ہو !!
زیادہ کچھ نہیں کرنا ہے  بس تم شادی کے بعد میرے گھر میں شفٹ ہو جانا ۔ تمہاری امی اگر نہیں آنا چاہیں تو ان کے ساتھ ملازمہ رہ لے گی۔ یا پھر اپنے چچا چچی کے گھر بھیج دینا ۔ ھے نا!
 پہلے یہ کلیر ہو جائے تو میں پاپا ممی سے تمہیں ملاؤں گی
اب پولو  !!    تمہارا فیصلہ کیا ہے ؟    وہ پر امید لہجے میں بولی  ۔تم سوچنے کے لئے کچھ وقت لے سکتے ہو ۔

شرجیل جو بت بنا اس کی باتیں اور مشورے سن رہا تھا  اچانک کرسی کو جھٹکا دے کر کھڑا ہوگیا اس نے صرف اتنا کہا  میڈم ! اس موضوع پر بات کرنا اور سوچنے کا وقت لینا بیکار ہے۔ میں فیصلہ ابھی سناۓ دیتا ہوں ۔آپ  میری زندگی میں   نہ شریک سفر بننے  لائق ہو اور   نہ ہی محبوبہ  جیسی دلکش پیکر کی جگہ لے سکتی ہو۔ 
چلتا ہوں۔
وہ تیزی سے نکل گیا۔ راستے میں اس نے اپنے دل کو ٹٹولا 
کہیں میرے فیصلے سے یہ تو بے چین نہیں مگر وہاں کچھ بھی ایسا نہیں تھا  دل بڑے سکون اور اطمینان سے اپنی دھڑکنیں طے کر رہا تھا۔   وہ بڑ بڑ ایا ا  :  یا اللہ تیرا لاکھ لاکھ شکر ہےکہ تو نے مجھے فیصلہ کرنے کی توفیق عطا فرمائی ۔
 اب شرجیل  خود کو ہلکا پھلکا محسوس کر رہا تھا ۔ ،🌼

                            *************
✍️۔۔۔🍁 سیدہ سعدیہ فتح 🍁




   12
4 Comments

Sona shayari

08-Oct-2022 07:15 PM

بہت زبردست👌

Reply

Reena yadav

08-Oct-2022 04:51 PM

👍😇

Reply

Gunjan Kamal

08-Oct-2022 03:02 PM

👌👏🙏🏻

Reply